ہمارے سماج میں بہت سی سماجی برائیوں نے جنم لیا ہے جس کے نتیجے میں ہمارا سماج دن بدن تباہی کے نزدیک جاتا ہوا نظر آرہا ہے، چاہے ہم بات کرے حال ہی میں ہوئے چوبیس سالہ لڑکی پر تیزاب حملے کی، ہمارے سماج میں منشیات کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی یا ہماری بہنوں پر ہوئے ظلم کی بات ہو یا بات ہو جہیز کی کی۔ یہ سب بری عادتیں ہمارے سماج کو تباہی کے دہانے کی طرف لے جارہی ہے۔
سماجی برائیاں سب سے زیادہ والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک والدین بچوں کو آزادی دیتے ہیں کہ ابھی چھوٹا ہے سدھر جائے گا لیکن وقت ایسا آن پڑتا ہے کہ سب تباہ ہو گیا ہوتا ہے۔ اگر والدین کو کچھ بھی اپنی بچے میں عجیب لگے تو ان کو چاہئے کہ بچے کی خبر لے نہ کہ اس کو بچہ سمجھ کر معاف کردے۔ والدین کو یہ بات ماننی چاہیے کہ اگر انکا بچا کسی بری صحبت کی طرف مائل ہو جاتا ہے تو یہ صرف اور صرف ان کی غلطی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو بری صحبتوں سے دور رکھے شام کو گھر آتے وقت بچوں کا جائزہ لیں کہ دن میں کہاں تھے کیا کیا، کہاں گئے تھے اور اگر سکول گے تھے تو وہاں کیا پڑا اور اگر سکول سے آنے میں دیر ہو جائے تو پوچھتاچھ کرنی چاہیے۔
لیکن آج والدین کو اتنی فرصت ہی کہاں ملتی ہے ہے دل کی پریشانی اور اگر شام کو وقت مل بھی جائے تو تو موبائل فون میں گھسے رہتے ہیں۔ بعض اوقات معنی یہ بھی دیکھا ہے کہ والدین اپنے اولاد کے ہاتھ نشیلی چیزیں منگواتے ہیں چاہے وہ تمباکو ہو یا سگریٹ ہو۔
آج کل معاشرے میں جو بھی برائیاں پنپ رہی ہے وہ صرف اور صرف لاپرواہی کا نتیجہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔
والدین کے ساتھ ساتھ قوم کے باشعور اور ذی وقار لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو اچھے راستے پر لے کر جائے لیکن وہ بھی کہا اس کام کو انجام دیتے ہیں کیونکہ اس کام کو کرنے میں کوئی پیسہ یا دنیاوی فائدہ نہیں ہے۔
میں نے اپنے معاشرے میں بہت چھوٹی بچی سگریٹ کا نشہ کرتے دیکھے ہیں۔
رات رات بھر بچے گھر سے غائب رہتے ہیں پوچھنے پر دوست کا نام لیتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی والد نے جاننے کی کوشش نہیں کی ہے یہ دوست کون ہے کہاں کا ہے وہ کسی بری چیز کا شکار تو نہیں ہے جس سے میری اولاد کو کوئی نقصان پہنچے لیکن نہیں والے سوچتا ہے بچہ باہر گیا میں اب آرام کروں گا۔
یہی سوچ کل ہمارے معاشرے کے بچوں کو تباہ کر دیتی ہے، ہر روز ہمارے معاشرے میں برائیوں کا نتیجہ ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے ہے، ہر روز ہمیں ایسے ایسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پہلے ہمارے معاشرے میں تو نہیں تھی لیکن اب انہیں برائیوں کی وجہ سے ہمیں اپنا منہ چھپا کر گھر سے نکلنا پڑتا ہے، یہ سب صرف اور صرف ہماری لاپرواہی اور خود غرضی کی وجہ سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔
آج کل بہت سارے بچے اپنے گھر سے دور پڑھنے جاتے ہیں اور کرائے کے کمرے میں رہنے لگتے ہیں لیکن آج تک کبھی میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی والد اس بات کو لے کر پریشان ہو کہ میرا بیٹا کیا کر رہا ہے وہ میری نظر سے دور ہے کیا وہ کسی بری چیز کا شکار تو نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنی مستقبل کو سنوارنے کے لیے ذمہ دار بننا ہوگا، والدین کو چاہیے اپنی اولاد کا خاص خیال رکھیں تاکہ وہ کسی بھی برے کام میں ملوث نہ ہو، اور باقی لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے کو بری عادتوں سے دور کیسے رکھیں اور والدین کو یہ بھی چاہیے کہ بعض اوقات وہ اپنی اولاد کا جائزہ لیں۔